Size / / /

مجھے دریائے شون کے ساحل پر آئے تیسرا ہی دن تھا کہ یہ واقعہ پیش آیا۔

کئی مہینوں سے ڈاکٹر گار کسی طبی تحقیق کے سلسلے میں یہاں مقیم تھا۔ اسی کے اصرار پر میں اپنی سہیلی شوشوئی کے ساتھ برائے چندے یہاں آئی ہوئی تھی کہ یہ واقعہ گزرا۔

پچھلے تین دن بڑے لطف میں کٹے۔ سال بھر کی شہد کی مکھی کی مصروفیت سے زیادہ مصروف زندگی کے بعد یہ چند دن مجھے اور شوشوئی کے لیے نعمتِ عظمیٰ ثابت ہو رہے تھے۔ میں کتابیں لکھا کرتی تھی اور وہ فلسفہ پڑھتے پڑھاتے تھک جایا کرتی تھی۔ لہٰذا ہماری زندگی پکّا گانا بن کر رہ گئی تھی۔ اب فرصت کے چند دن نصیب ہوئے تو ہم زندگی کو پکے گانے کی بجائے ہلکی خوشگوار موسیقی بنانے پر تل گئی تھیں۔

چنانچہ میں اور شوشوئی سمندر کے رُخ کھلنے والے لمبے دریچوں میں بیٹھی بیت بازی کیا کرتیں، کبھی غزلیں گانے لگ جاتیں، کبھی شطرنج کھیلنے بیٹھ جاتیں لیکن میں اپنی طبیعت کی فطری بے چینی کی وجہ سے ڈیڑھ دو گھنٹے جم کر بیٹھ نہیں سکتی تھی۔ لہٰذا شطرنج کی بازی نامکمل چھوڑ کر اُٹھ جاتی۔ پھر ہم دونوں ایپرن باندھ کر باورچی خانے میں چلی جاتیں اور اپنی تازہ حاصل کی ہوئی تراکیب کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش پر چولہے کے آگے جا کھڑی ہوتیں۔ وہاں بھی مسلسل باتیں کیے جاتیں۔

غروب آفتاب کے بعد ڈاکٹر گار کی مصروفیت ختم ہو جاتی ہم تینوں فراغت کے ایک خوشگوار احساس کے ساتھ اکٹھے بیٹھ جاتے، آپ کو تو علم ہے۔ ڈاکٹر گار کتنا اچھا داستان گو ہے۔ حیرت انگیز، طبّی واقعات، عجیب تجربات، اسی پر سونے پر سہاگہ اس کے عالمی سیاسیات پر مضحکہ خیز تبصرے، غرض تمام شام یہ باتیں سن کر میں اور شوشوئی ہنستے ہنستے لوٹ جاتیں لیکن تیسرے دن یہ واقعہ پیش آیا۔ میں ابھی آپ کو سناتی ہوں۔

اس دن ہم نے سرِشام ہی کھانا کھا لیا تھا۔ کیونکہ ایک تو شوشوئی نے اس شام ایک نئی ترکیب سے سمندری مچھلی لیمو کے رس سے تلی تھی۔ دوسرے اس رات ڈاکٹر گار ایک بالکل نئی دلچسپ اور زندہ کہانی سنانے والا تھا اور ہم دونوں بے چین ہو رہی تھیں کہ اسے سنیں۔ مگر یوں نہ ہو سکا!

میں ہمیشہ لمبے دریچوں سے باہر جھانک جھانک کر موسم کی جدید تبدیلیوں سے آگاہ رہنے کی عادی ہوں۔ جس وقت میں عادتاً باہر جھانک رہی تھی تو شوشوئی منھ ہی منھ میں کوئی سُریلا نغمہ گنگنا رہی تھی اور ڈاکٹر گار شوشوئی کی تلی ہوئی لذیذ مچھلی سے لطف اندوز ہونے کے بعد ایک صوفے پر بیٹھا خلال کر رہا تھا۔

شوشوئی چیخ پڑی۔ ’’ہیں ہیں ہیں، کیا کر رہی ہو؟ باہر سمندر میں جا گرو گی روحی۔ اتنا جھک کر نہ جھانکا کرو...!!‘‘
اس کے ٹوکنے پر میں کچھ سنبھلی لیکن مسلسل باہر جھانکتے ہوئے بولی۔ ’’آسمان کے نیچے اور سمندر کے اوپر ایک عجیب قسم کی سیاہ گھٹا اُٹھ رہی ہے۔‘‘

شوشوئی ہنس پڑی ’’تم ہمیشہ موسم کے متعلق ڈراؤنی پیش گوئیاں کرتی رہتی ہو روحی۔ دریچے کا پٹ بند کر کے ادھر آ بیٹھو۔ ڈاکٹر گار آج ایک بڑی دلچسپ کہانی سنانے والے ہیں۔‘‘

میں ذرا تشویش کے لہجے میں بولی۔ ’’جانتی ہوں— لیکن وہ بولی ‘‘۔ ڈاکٹر گار نے اب سگار سلگا لیا تھا۔ کہنے لگا۔ ’’زندگی کی براہِ راست لی ہوئی کہانی ہے روحیا (روحی)۔ بدلی کو گولی مارو اور تم یہاں آ بیٹھو۔ ‘‘

میں نے دریچہ بند کرنے سے پہلے مناسب سمجھا کہ ایک آخری تکمیلی نظر زمین و آسمان اور سمندر پر ڈال لوں۔ چنانچہ میں پھر جھک کر جھانکنے لگی۔‘‘

شوشوئی خوف زدہ ہو کر چلا اٹھی ’’ہائے ہائے ہائے۔ لگتا ہے آج جھانکتے جھانکتے سمندر میں جا گرو گی۔‘‘

میں نے سر اندر کر لیا۔ ’’نہیں شو___ اب نہیں جھانکوں گی۔ لیکن جو بدلی اُٹھ رہی ہے۔ وہ مجھے کچھ غیر معمولی سی لگ رہی ہے اور وہ طوفان بھی بپا کر سکتی ہے۔‘‘

’’تمہیں کیا معلوم؟‘‘ شو شوی نے جل کر کہا۔

’’تمہیں کیا معلوم؟‘‘ شو شوی نے جل کر کہا۔’’تمہیں کیا معلوم؟‘‘ شو شوی نے جل کر کہا۔’’تمہیں کیا معلوم؟‘‘ شو شوی نے جل کر کہا۔ڈاکٹر گار ہنس پڑا۔ ’’روحیا پیاری۔ تمہیں مصنف ہونے کی بجائے محکمۂ موسمیات کا افسرِاعلیٰ ہونا چاہیے تھا۔‘‘

شوشوئی اُکتا کر بولی۔ ’’اور مجھے اس محکمے پر ذرا بھی اعتبار نہیں۔ یہ لوگ ہمیشہ غلط پیش گوئیاں کرتے رہتے ہیں۔‘‘

ڈاکٹر گار ہنس کر بولا۔ ’’یہی تو ہماری خوش قسمتی ہے۔ روحیا اب کھڑکی بند کر کے یہاں آ بیٹھو۔ کہانی شروع کرنے والا ہوں۔ دونوں نچلی بیٹھ جاؤ۔ نہ ہاں کرو نہ ناں___ اور سنو کہ مجھ پر ایک دفعہ کیا گزری۔

’’کیا گزری؟‘‘___ شوشوئی نے ہمہ تن گوش بن کر پوچھا۔ میں بولی۔ ’’اب دیر نہ لگائیے ڈاکٹر۔ سگار رکھ دیجیے راکھ دان میں۔ اور ہاں اپنی کہانی خالص کہانی پن اور کلاسیکی انداز میں سنائیے۔ علامتی زبان نہ ہو، جو انسانی مصائب کو جانوروں کے خونخوار پنجوں کا سہارا لے کر ظاہر کرتی ہے۔‘‘

ڈاکٹر گار نے سگار انگلیوں میں پکڑ لیا اور بولا۔ میں بزدل تھوڑا ہی ہوں جو اپنے جذبات کو سہاروں کی مدد سے ظاہر کروں___۔ اچھا اب سنو کہ ایک دفعہ مجھ پر کیا گزری۔ ‘‘

وہ کہانی کا آغاز کر ہی رہا تھا کہ ٹیلیفون کی گھنٹی بجی۔
’’نہ نہ___ ‘‘ شوشوئی چیخ پڑی۔ ’’اسے نہ اٹھائیے___ کہانی رہ جائے گی۔‘‘

’’کسی مریض کا ٹیلیفون نہ ہو۔‘‘ ڈاکٹر گار نے قدرے متفکّر ہو کر کہا۔ پھر رسیور اٹھا لیا۔ پوچھنے لگا ’’ڈاکٹر گار بول رہا ہوں۔ ابھی صرف علامات ہیں یا دورہ تیز ہو چکا ہے؟‘‘ پھر تو میں ابھی آیا۔‘‘

وہ کچھ کہے سنے بغیر بڑی تیزی سے صدر دروازے کی طرف گیا۔ کھونٹی پر سے اپنا لمبا کوٹ اُتار کر پہننے لگا پھر بولا۔ ’’پیاریو ___مجھے گھنٹہ بھر لگ جائے گا۔ اس شخص کو دل کا دورہ پڑا ہے!‘‘ پھر جھک کر اپنا طبّی بیگ اُٹھا لیا۔

ہم دونوں سخت مایوس ہوئیں۔
شوشوئی نے افسردہ ہو کر کہا۔ ’’لیکن اس موسم میں آپ کیسے جائیں گے؟ ‘‘

’’کیوں؟‘‘ ڈاکٹر گار نے حیران ہو کر پوچھا۔ ’’موسم کو کیا ہوگیا؟ بالکل ٹھیک ہے۔‘‘
’’روحی کہتی تھیں طوفان آئے گا۔‘‘ شوشوئی نے کہا۔

’’وہ روحی کا ذہنی طوفان ہے جو اکثر آتا رہتا ہے___ ‘‘ ڈاکٹر گار نے میری طرف آتے دیکھ کر مسکراتے ہوئے کہا۔
’’کیا حرج ہے ہم دونوں آپ کے ساتھ چلیں___؟‘‘میں نے مشورہ پیش کیا۔

لمحے بعد ڈاکٹر گار بڑی تیزی سے کار چلا رہا تھا اور ہم دونوں چپ چاپ اس کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھیں۔
موسم کے متعلق اکثر انسانی پیش گوئیاں سراسر غلط ثابت ہوتی رہتی ہیں۔ مگر اس رات!!

ہم شہر سے باہر نکل آئے سڑک کی روشنیاں بھی ہم سے فاصلے پر رہ گئی تھیں اور ہم بحرِظلمات میں گھوڑے دوڑاتے مریض کا گھر ڈھونڈ رہے تھے۔ ڈاکٹر گار کار کبھی دائیں کو موڑتا کبھی بائیں کو۔ اسے مریض کے ہاں فوراً پہنچنا تھا اور اس تگ و دو میں نصف گھنٹہ گزر چکا تھا۔ اسی شش و پنج میں اس کی نظر ایک پٹرول پمپ پر پڑ گئی۔ کہنے لگا ’’اس ویرانے میں پٹرول پمپ ایک نعمت ہے۔ یہیں سے مریض کے گھر کا پتہ اور مریض کی حالت کے متعلق ٹیلیفون کر کے معلوم کر لیتا ہوں۔‘‘

وہ فون کر کے فوراً واپس آگیا۔ کار پر چڑھتے چڑھتے کہنے لگا۔ ’’مریض ختم ہوچکا ہے۔ معلوم ہوتا ہے دل کا دورہ شدید تھا۔ اب واپس چلو۔‘‘

اس دوران طوفان شروع ہو گیا۔ جس بدلی کو میں نے پائیں باغ کے دریچے سے جھانک کر دیکھا تھا اور کہا تھا کہ یہ طوفان بھی بپا کر سکتی ہے۔ اب وہ بپا کرنے لگی تھی___ میں ذرا شرمندہ اور گھبرائی ہوئی بیٹھی تھی کہ ڈاکٹر گار اور شوشوئی کہیں یہ نہ سمجھیں کہ میں نے ان کے خلاف بدلی سے کوئی سازش کی تھی___

تیز و تند ہوائیں۔ گہری تاریکی نہ بجلی کی چمک، بادلوں کی کڑک، نامعلوم اور ناہموار راستہ، ستم بالائے ستم، بارش کے قطروں کے ساتھ ژالہ باری بھی شروع ہوگئی تھی۔ جس سے اندیشہ تھا کہ کار کے شیشے نہ متاثر ہوں۔

میں اپنے آپ کو خواہ مخواہ ناکردہ گناہ کی مجرم محسوس کر رہی تھی کیونکہ سمندری دریچے سے بار بار جھانک کر میں نے ہی طوفان کی پیش گوئی کی تھی۔

پھر جب ایک بڑا سا اولا کار کے شیشے پر آگرا تو میں نے کہا۔ ’’کچھ دیر کے لیے کار یہیں کھڑی کر دیجیے ڈاکٹر۔‘‘

’’یہی کرنا پڑے گا۔‘‘ ڈاکٹرنے کہا پھر اِدھر اُدھر دیکھ کر بولا۔ ’’مگر کہاں؟ رستہ نظر نہیں آتا۔ آبادی کا نام و نشان نہیں۔ ہم شہر سے بہت دور نکل آئے ہیں۔‘‘

اتنے میں شوشوئی نے کہا۔ ’’روحی سچ کہتی تھی کہ طوفان آئے گا۔‘‘

میں اپنا نام سُن کر کچھ گھبرا سی گئی۔

کچھ دیر بعد ژالہ باری ختم ہوگئی۔ مگر طوفان کا زور بڑھ گیا۔ ہم منزل کی تلاش میں بھٹکنے لگے۔ وہ ہوا جو کلاسیکی داستانوں میں ہوتا آیا ہے۔ ہم منزل کی طوفانی رات میں دُور سے کسی عمارت کی روشنی نظر آئی۔

اس روشنی کو دیکھ کر ڈاکٹر گار کہنے لگا۔ ’’اس ویرانے میں یہ عمارت کہاں سے آگئی؟ دراصل میں شہر شون کے لیے اجنبی ہوں۔ یہاں کے رستوں سے بھی ابھی پوری واقفیت نہیں ہوئی۔‘‘

جب کار ہچکولے کھاتی ہوئی عمارت کے آگے جا کھڑی ہوئی تو شیشوں میں سے نظر آیا کہ اندر بہت کچھ ہو رہا ہے۔

’’معلوم ہوتا ہے یہاں کوئی تقریب منعقد ہو رہی ہے۔‘‘ شوشوئی نے کہا۔ ‘‘یہ تو بہت اچھی بات ہے۔‘‘ ڈاکٹر گار نے کار کی چابی جیب میں رکھتے ہوئے خوش ہو کر کہا۔

’’مگر یہاں باہر مہمانوں کی سواریاں نہیں ہیں۔‘‘ میں نے کہا۔ ’’اندر لوگ تو بہت ہیں ان کی سواریاں کہاں ہیں؟ ‘‘

’’شاید سب سائیکلوں پر چڑھ کے آئے ہو اور طوفان کی وجہ سے اندر لے گئے ہوں۔‘‘ شوشوئی نے کہا۔

میں ہنس پڑی۔ ’’سائیکلوں پر؟ کیسے ممکن ہے شو۔ تمھاری بھی عجیب باتیں ہوتی ہیں۔‘‘

اتنی دیر ڈاکٹر گار اندر جھانکتا رہا۔ پھر بولا۔ ’’ تقریب بڑی معلوم ہوتی ہے۔ اور ہمارے پاس دعوتی بلاوا نہیں ہے۔۔۔ اندر کیسے جائیں؟ ___ ‘‘

شوشوئی کہنے لگی۔ ’’اس بھیڑ میں ہمیں کون پہچانے گا کہ ہم مہمان ہیں کہ میزبان___ ‘‘

تھوڑی دیر کی تشویش کے بعد آخر ڈاکٹر گار نے صدر دروازہ کھٹ کھٹایا۔ دروازہ فوراً کھل گیا اور ایک خاتون نے آگے بڑھ کر کہا۔ ’’آئیے آئیے۔ کب آئے؟‘‘

’’ابھی ابھی۔‘‘___ ہم میں سے کسی نے کہا۔

خاتون کہنے لگیں۔ ’’ابھی؟ طاعون آیا ہوا تھا کہ ٹائی فائڈ؟‘‘

ڈاکٹر گار کچھ نہ سمجھ سکا پوچھنے لگا۔ ’’کیسے؟‘‘

خاتون کہنے لگیں۔ ’’مجھے طاعون ہوگیا تھا۔ توبہ توبہ۔ بڑی اذیت اُٹھائی۔ بخار، بیہوشی، گلٹی!‘‘

’’جی ہاں یہی ہوتا ہے طاعون میں۔‘‘ ڈاکٹر گار نے جواباً کہا۔

پھر وہ خاتون اچانک مہمانوں میں جا ملیں۔

لمحہ بھر بعد شوشوئی کہنے لگی۔ ’’یہ عورت مجھے پاگل معلوم ہوتی تھی۔‘‘

’’معلوم ہوتی تھی کیا___ بالکل پاگل ہے۔‘‘ ڈاکٹر نے کہا۔

’’شکر ہے چلی گئی۔ مجھے پاگلوں سے ہمدردی تو ہے مگر بڑا ہی ڈر لگتا ہے___ ‘‘ میں نے خوفزدہ ہو کر کہا۔

ہم تین پناہ گزین اِدھر اُدھر دیکھتے ہوئے دوسرے کمرے میں جا نکلے۔ وہاں کا ماحول بتا رہا تھا کہ یہاں کسی کی شادی ہو رہی ہے۔ ایک چوکی پر مسند بچھی ہوئی تھی اور دولہا دلہن زرق برق لباس پہنے گاؤ تکیہ سے ٹیک لگائے سرنگوں بیٹھے ہوئے تھے۔

’’یہ تو شادی کا جشن منایا جا رہا ہے___ ‘‘ ڈاکٹر گار نے کہا۔

یہ سُن کر میں نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا۔ ’’تو کیا ہمیں کچھ روپے سلامی دینے پڑیں گے؟‘‘

’’یقیناً___ ‘‘ شوشوئی نے کہا۔
’’یہ تم دونوں جانو___ مجھے اس قسم کی رسومات سے کوئی دلچسپی نہیں۔‘‘ ڈاکٹر گار نے کہا۔

میں نے اپنا دستی بٹوہ کھولا۔ سو روپے کا ایک نوٹ سلامی میں دینے کے لیے نکالا۔ اور آگے بڑھی۔ اور نہایت انکساری سے نوٹ دلہا دلہن کے آگے رکھ دیا۔ اور شرمیلے لہجے میں بولی، ’’آپ کی سلامی۔ ‘‘

دلہا نے نظر اٹھا کر مجھے اور شوشوئی کو دیکھا۔ پوچھنے لگا۔ ’’آپ کب آئیں؟‘‘
’’ابھی___ ‘‘ میں نے جواباً کہا۔

’’ابھی آئیں؟ آسمانی بجلی گِری تھی؟ ‘‘

’’نہیں تو___کس پر؟...‘‘ میں پریشان ہو کر پوچھنے لگی۔

دُلہا کہنے لگا۔ ’’طوفانوں میں آسمانی بجلی گِرا کرتی ہے اور بھسم کر دیتی ہے۔‘‘

میں حیران ہو کر بولی۔ ’’یہ واقعہ کس پر گزرا؟ ابھی تک تو کوئی بجلی نہیں گری___ ہاں باہر طوفان چل رہا ہے۔‘‘

ڈاکٹر گار قریب آ گیا۔ مسکرا کر بولا۔ ’’در اصل اسی طوفان نے ہمیں یہاں پہنچایا ہے۔‘‘

یہ سن کر دلہن بول پڑی۔ ’’پھر تو ضرور بجلی گری ہوگی اور سب بھسم ہو گئے ہوں گے۔‘‘

ڈاکٹر گار حیران ہو کر بولا۔ ’’نہیں صاحب! نہ بجلی گِری نہ کوئی بھسم ہوا۔ یہ واقع کس پر گزرا؟‘‘

دولہا کہنے لگا۔ ’’وہ جو دروازہ آپ کے پیچھے ہے۔ وہاں ہم دونوں کھڑے تھے۔ اچانک بجلی کوندی اور بڑے زور سے گِر پڑی۔‘‘

’’اس وقت ہماری شادی ہو رہی تھی۔‘‘ دلہن نے کہا۔

ڈاکٹر گار پریشان سا ہوگیا۔ پوچھنے لگا۔ ’’کب کا واقعہ ہے؟‘‘

دولہا کہنے لگا۔ ’’پچاس سال ہوگئے۔‘‘

یہ سُن کر میرے ہوش اُڑ گئے۔‘‘

شوشوئی نے سرگوشی کی۔ ’’یقین جانو یہ پاگل خانہ ہے___ ‘‘

میرا یہ حال تھا کہ کاٹو تو لہو نہیں بدن میں۔

ڈاکٹر گار کہنے لگا۔ ’’آپ کیسی باتیں کرتی ہیں صاحب۔ پچاس سال؟___ آپ دونوں کی عمریں بیس سال سے زیادہ کی نہیں لگتیں۔‘‘

ہم تینوں اپنے میزبانوں کی اوٹ پٹانگ باتوں سے حواس باختہ ہو رہے تھے کہ ایک نوجوان قریب آگیا اور شوشوئی سے پوچھنے لگا۔ ’’آپ کب آئیں؟ سمندر میں غرق ہوئی تھیں؟‘‘

شوشوئی ٹھٹک کر کھڑی ہوگئی جھلّا کر بولی۔ ’’یہ صریحاً پاگل خانہ ہے۔ باہر نکل چلو ورنہ ہم بھی پاگل ہو جائیں گے۔‘‘
وہ نو جوان ساکت کھڑا رہا۔ پھر لمحہ بعد اپنا سوال دہرایا!

’’ سمندر میں غرق ہوئی تھیں؟ ‘‘

شوشوئی ناراض ہو کر بولی۔ کیا مطلب؟ اس وقت میں یہاں کھڑی ہوں۔ سمندر میں غرق ہوتی تو یہاں کھڑی ہوتی؟‘‘

نوجوان سپاٹ لہجے میں کہنے لگا۔ ’’سمندر میں غرق ہونے کے بعد ہی تم یہاں پہنچ سکتی تھیں؟‘‘

’’تم سب مجھے خطرناک پاگل لگ رہے ہو۔ یہاں سمندر کا کیا ذکر ہے؟ اس میں کون غرق ہوا تھا؟ شوشوئی ناگواری کے لہجے میں پوچھنے لگی۔‘‘

نوجوان نے کہا۔ ’’چھٹی کا دن تھا۔ میں سمندر میں تیر رہا تھا۔‘‘

’’تو کیا ہوا تھا؟‘‘ شوشوئی نے جل کر پوچھا۔

’’غرق ہو گیا تھا___ ‘‘ یہ کہہ کر نوجوان مہمانوں کی بھیڑ میں جا ملا۔

شوشوئی سخت متوحش ہوگئی۔ ڈاکٹر گار بھی ان کی بے ربط گفتگو سُن کر سخت پریشان نظر آ رہا تھا۔

میں بولی۔ ’’سارے کے سارے مشکوک لوگ ہیں۔‘‘

ڈاکٹر گار کہنے لگا۔ ’’سمجھ میں نہیں آتا کیا ہیں؟ ___دیوانے___ لٹیرے، چور، ڈاکو یا اسمگلر۔‘‘

’’یا کسی قسم کی زہریلی شراب پی گئے ہیں؟ کوئی بھی اپنے ہوش میں نہیں لگتا___ ‘‘ شوشوئی نے کہا۔

’’اب ان باتوں میں وقت ضائع کرنے کا فائدہ؟‘‘___ میں اُکتا کر بولی۔ ’’جس رستے سے آئے ہو اسی سے واپس چلو۔‘‘

ہم صدر دروازے کی طرف چلے جہاں سے اندر داخل ہوئے تھے۔ مگر ہماری جدوجہد رائیگاں گئی یا تو وہ دروازہ ہی غائب ہو گیا تھا یا ہم سمت بھول گئے تھے۔ باوجود کوشش کے ہم صدر دروازے تک نہ پہنچ پائے۔ مایوس ہو کر لوٹ رہے تھے کہ ایک معزز شخص سے مڈبھیڑ ہو گئی۔

’’جناب صدر دروازہ کدھر ہے جس سے ہم اندر آئے تھے؟‘‘ ڈاکٹر نے پوچھا۔

معزز آدمی کھڑا ہو گیا۔ ہم تینوں پر نظر ڈالی پھر بولا۔ ’’بیک وقت آپ تین؟‘‘

ڈاکٹر گار معذرت کے لہجے میں مسکرا کر بولا۔ ’’باہر طوفان چل رہا تھا___ جناب ہمیں مجبوراً یہاں آنا پڑا۔‘‘

کار کا حادثہ ہو گیا تھا___؟‘‘ معزز آدمی نے سوال کیا۔

’’جی نہیں___‘‘ ڈاکٹر نے جواب دیا۔

’’تو پھر___؟ کسی حادثے کے بغیر یہاں آگئے؟‘‘

’’یہاں آنے کے لیے حادثہ ضروری ہے؟‘‘ ڈاکٹر گار نے پوچھا۔

جواب ملا۔ ’’تین مہینے ہوئے میں شہر کی طرف جا رہا تھا کہ میری کار ایک پیڑ سے ٹکرا کر چکناچور ہوگئی۔ ساتھ ہی میں بھی!‘‘

ہم تینوں نے حیران ہو کر ان حضرت پر نظر ڈالی۔ ڈاکٹر گار کہنے لگا۔ ’’مگر اس وقت تو آپ صحیح سالم ہیں۔‘‘

’’ہاں ___ میرا خیال تھا کار کے حادثے نے آپ تینوں کو یہاں پہنچا دیا ہے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ بھی ہجوم میں جا ملے۔ اس گفتگو کے بعد اس معزز آدمی کے پاگل ہونے میں بھی کوئی شبہ نہ رہا۔

شدید تشویش کے عالم میں ہم تینوں صدر دروازے کی تلاش میں پھر سے نکل پڑے۔ ایک طرف کو جا رہے تھے کہ ایک ایوان پر نظر پڑی جہاں بے شمار میزیں لگی ہوئی تھیں اور لگتا تھا کہ ان پر کسی ضیافت کا کھانا چنا ہوا ہے، کیونکہ چاندی کے ظروف اور مشروب پینے کے گلاس لگے ہوئے تھے۔‘‘

پریشانی کے عالم میں ڈاکٹر گار کو ہمیشہ بھوک لگا کرتی ہے۔ یہ دیکھ کر کہنے لگا۔ ’’پیاریو، ٹھہر جاؤ۔ جانے سے پہلے ذرا تازہ دم ہو جائیں۔ پاگلوں کی صحبت نے نیم مردہ کر دیا ہے، آؤ کچھ کھا پی لیں۔‘‘

ہم ایوانِ طعام میں داخل ہوئے۔ ڈاکٹر گار نے فوراً ایک رکابی اٹھائی اور چمچہ لے کر ایک کٹورے پر جھکا جس میں سے بھاپ نکل رہی تھی پھر چیخ پڑا۔ ’’ہائی ___ یہ کیا؟ صرف بھاپ ہی بھاپ ہے۔ ظروف خالی پڑے ہیں۔‘‘

اس واقعے کے بعد ہم وہاں سے بھاگ کھڑے ہوئے۔ مان لیا کہ یہ سارے لوگ مشکوک تھے۔ مگر اب ہمارے سامنے سوال یہ تھا کہ دسترخوان پر لگے ہوئے کھانے کہاں گئے اور اس میں سے اٹھتی ہوئی یہ بھاپ کیا شے تھی؟ کسی جن کی کارستانی تھی یا سائنس کا کرشمہ۔

ایٹمی دھواں؟ ___

بہ ہزار دقّت ہم اس عمارت سے باہر نکل ہی آئے اور کار میں جا بیٹھے۔ ہماری زبانیں گنگ تھیں۔ ہم ان عجیب و غریب واقعات پر تبصرہ نہیں کر سکتے تھے۔ دماغ سن تھا اور زبان بند___ بس تین لاشیں کار میں چلی جا رہی تھیں۔

اسی تگ و دو میں آسمان پر صبح کی روشنی پھیلنے لگی۔

ایک گھنٹے کے بعد جب کار شہر پہنچ گئی تو ڈاکٹر گار نے کہا: ’’میں تھانے میں رپورٹ لکھوانا چاہتا ہوں۔ جو کچھ ہم پر گزری اور ہم نے رات وہاں دیکھا اس سے پولیس کو باخبر کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے۔‘‘

لیکن جس کسی سے بھی ہم نے اس عمارت کا ذکر کیا حیران ہو کر ہمیں دیکھنے لگا اور کہا کہ وہاں اس قسم کی عمارت کوئی نہیں۔ جس سے بھی ہم نے رات کے واقعات کا ذکر کیا وہ مشکوک نظروں سے ہمیں دیکھنے لگا یا مسکرا کر کسی اور طرف کو چل دیا۔

شبِ گزشتہ کے ناقابلِ یقین واقعات نے ہمارے ذہنوں کو تلپٹ کر رکھا تھا۔ مگر اس کا کیا علاج کہ ہم اپنا دکھ کسی سے بیان نہیں کر سکتے تھے، صحیح معنوں میں ہم شب گزیدہ تھے!



Hijab Imtiaz Ali (1908-1999) was known as the Queen of Romanticism in twentieth century Urdu literary circles. She was born in Hyderabad, India and moved to Lahore (which later became a part of Pakistan) after her marriage. In her seven-decade-long writing career, she wrote several short stories, novels, and plays. Her horror stories play with genre conventions, and can perhaps be best described as tongue-in-cheek gothic, with characters seemingly more concerned with the breaches of etiquette caused by supernatural phenomena, rather than their own fear. Throughout her life, Hijab populated all her writings - whether a romance novel or a terrifying short story - with a similar cast of characters, all of whom inhabit an imaginary universe of her own creation; a subtly feminist world that culturally resembles an amalgam of the Middle East and South Asia.